آپ کے دولتکدے سے کھا کے مار آ ہی گیا
' عمر بھر کی بیقراری کو قرار آ ہی گیا'
فیل ہونے پر تو وہ جوتے لگاتے ابا جان
شکر ہے مالک ترا ہم کو بخار آ ہی گیا
شیر خاں صاحب کسی کو بھی نہ دیتے ادھار
نوک پر ٹی ٹی کی لے کر میں ادھار آ ہی گیا
واپڈا آفس جو پہنچے کہہ اٹھا کنسرن یہ
مال پانی کے لئے آخر شکار آ ہی گیا
حساب کےاستاد بید بازی کرتے کرتے رک گئے
دل کچھ اس صورت تڑپا' ان کو پیار آ ہی گیا
ہار پہنائے کوئ عاصی کو بے حد شوق تھا
جوتیوں کا آخرش گردن میں ہار آ ہی گیا