ماں
Poet: عرشیہ ہاشمی By: arshiya hashmi, islam abad
تو میرے پاس ہے جنت ابھی ہے پاس میرے
تجھے منزل بنائے گی تیری یہ بیٹی ،،،ماں
ماں مجھے یاد ہے تو کیسے تڑپ اٹھتی تھی
تیرے بچے کسی مشکل میں جو پڑ جاتے تھے
تو تو پھر سانس بھی شب بھر لے نہ پاتی تھی
گواہ بے چینیوں کی ہے یہ تیری بیٹی ۔۔۔۔۔ماں
تو نے الزام بے وفائی اپنے سر پہ لیا
اپنی اولد کو پالا بڑی محبت سے
زمانے بھر کی کڑی دھوپ میں تھی سایہ بنی
کیا وفاؤں کا صلہ دے یہ تیری بیٹی ،،،ماں
خون دل دے کہ جگر گوشے تو نے پالے تھے
آج بیگم کے پجاری جو بن کے رھتے ہیں
ہے سراسر گناہ ،،اور ہے تذلیل وفا
کاش احساس جگا پائے تیری یہ بیٹی،،،،ماں
ہائے ظلمت کہ جنہیں خون دل دیا تو نے
زندگی بھر کے دکھوں میں تو ساتھ جلتی رہی
آج اس گھر میں تجھے بوجھ سمجھ بیٹھے ہیں
ہائے افسوس،،،صد افسوس،،بڑی ظلمت ہے
تیرے حالات پہ دل کو جلائے تیری یہ بیٹی ،،،ماں
کس قدر رویا ہے دل تڑپا ہے
کتنا مغموم جدائی میں رہا کرتا ہے
حال دل کس کو سنائے تیری عرشی
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں






