تو میرے پاس ہے جنت ابھی ہے پاس میرے
تجھے منزل بنائے گی تیری یہ بیٹی ،،،ماں
ماں مجھے یاد ہے تو کیسے تڑپ اٹھتی تھی
تیرے بچے کسی مشکل میں جو پڑ جاتے تھے
تو تو پھر سانس بھی شب بھر لے نہ پاتی تھی
گواہ بے چینیوں کی ہے یہ تیری بیٹی ۔۔۔۔۔ماں
تو نے الزام بے وفائی اپنے سر پہ لیا
اپنی اولد کو پالا بڑی محبت سے
زمانے بھر کی کڑی دھوپ میں تھی سایہ بنی
کیا وفاؤں کا صلہ دے یہ تیری بیٹی ،،،ماں
خون دل دے کہ جگر گوشے تو نے پالے تھے
آج بیگم کے پجاری جو بن کے رھتے ہیں
ہے سراسر گناہ ،،اور ہے تذلیل وفا
کاش احساس جگا پائے تیری یہ بیٹی،،،،ماں
ہائے ظلمت کہ جنہیں خون دل دیا تو نے
زندگی بھر کے دکھوں میں تو ساتھ جلتی رہی
آج اس گھر میں تجھے بوجھ سمجھ بیٹھے ہیں
ہائے افسوس،،،صد افسوس،،بڑی ظلمت ہے
تیرے حالات پہ دل کو جلائے تیری یہ بیٹی ،،،ماں
کس قدر رویا ہے دل تڑپا ہے
کتنا مغموم جدائی میں رہا کرتا ہے
حال دل کس کو سنائے تیری عرشی