جب اس دنیا نامی اُجری بستی مِیں مَیں آیا تھا
وہ اک ہی ہستی تھی جسکا مجھ پر سایا تھا
میرے بھوکے پیٹھ کو بھرنے کی خاطر
اُس نے اپنے نصیب سے چھین کر مجھے کھلایا تھا
مجھے بیمار جو دیکھا تو سجدے سے اُٹھی نہیں وہ رات بھر
اپنے آنسووں کا واسطہ دے کر اُس نے خدا کو منایا تھا
اس کے ہاتھ جو لگے تو درد کو کیسے نہ آتا آرام
زخم بھی ہوا خوش نصیب جو مرہم اُس نے لگایا تھا
ہنسنا جانتی نہ تھی یا میری فکر میں رہتی وہ ملوث ہر وقت
لب اُس کے بھی کِھلے اک دن جب میں مسُکرایا تھا
اُس کے پیروں کی مٹی سے سرشار جو ہوں تو بن جاوں میں قابل
کیونکہ جنت کو خدا نے اُس کے قدموں تلے سجایا تھا
بہت دعوے کیے اس دنیا کے مسافروں نے محبت کے مگر
وہ ماں ہی تھی جسکا پیار نُو مہینے زیادہ پایا تھا