مبہم سااک کلام لکھا تھا اسی طرح
اغیار کاسلام لکھا تھا اسی طرح
تاریک نگاہوں سےامید نہ رکھ کوئ
خاموش اک پیام لکھا تھا اسی طرح
بےکیف گذر جائے ساری ہی زندگی
قدرت کا انتقام لکھا تھا اسی طرح
گلشن بھی وارخزاں ہنس کے سہہ گیا
قسمت میںیہ آلام لکھا تھا اسی طرح
گم مقصد حیات ہو وقت کے غبار میں
روزی کا اہتمام لکھا تھا اسی طرح
دل کی اس کتاب کے سادہ رہیں ورق
ہوں عشق میں ناکام لکھا تھا اسی طرح
تشنہ لبی میری رہے یونہی صدا قائم
اس جرم کا انجام لکھا تھا اسی طرح
میں اپنی کبھی کوئ وضاحت نہ کرسکا
تندگوئ کا الزام لکھا تھا اسی طرح
سیلاب اپنے ساتھ بہا لے گیا اسے
بستی کا انہدام لکھا تھا اسی طرح
ہستی مٹادے شمع اجالےکی چاہ میں
شاید کہ اختتام لکھا تھا اسی طرح