نجانے کون سا ڈر ہے
نجانے کون سی ضد ہے
یہ ڈر ہے یا کوئی ضد ہے
معّمہ حل طلب ہے یہ
مگر ہے آرزو دل کی
کہ میں تاریخ کے ماتھے پہ چند الفاظ لکھ ڈالوں
جو بعد از مرگ بھی دنیا مرے اشعار دہرائے
مرے افکار کی ضُو سے کوئی تبدیلی آجائے
یہی خواہش مرے دل میں بڑی ہلچل مچاتی ہے
مجھے مجبور کرتی ہے
قلم سے جو بھی میں لکھوں وہ حق کی ترجمانی ہو
کہ آنے والی نسلیں بھی مجھے دوشی نہ ٹھہرائیں
وہ باتوں میں نہ یہ کہہ دیں
بکاو تھا ہوس کا مارا شاعر تھامجھے ڈر ہے
مجھے ڈر ہے
کہ محنت فیض و جالب کی کہیں زائل نہ ہو جائے
جو تھا اقبال کا شاھیں کہیں پھر سے نہ سو جائے
مجھے ڈر ہے
کہ نسلِ نو ترے بچے مرے بچے
جو بعد از مرگ قبروں پر دعا کے واسطے آئیں
وہ جیون سے نہ تنگ آکر لحد پر تیری اور میری
کہیں جوتے نہ دیں ماریں
کہ کیسے ملک میں تم نے دیا ہے آشیاں ہم کو
ہزار اس سے تو بہتر تھا نہ پیدا ہی یہاں ہوتے
نہ یہ حالات ہم تکتے نہ ایسے پھوٹ کر روتے
یہ اپنا دیس ہے لوگو مرے اسلاف نے اس کے لیےقربانیاں د یں ہیں
لہو اپنا بہایا ہے بہت سا رنج اٹھایا ہے
تو کیسے بھیٹریوں کے ہاتھ میں اپنا وطن دے دوں
جسے خوں تک پلایا ہے وہ سارا میں چمن دے دوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے تباہی رب کی جانب سے مقدر میں لکھی جائے
کوئِی اقدام کر ڈالو جو باقی تن میں ہیں سانسیں
وطن کے نام کر ڈالو۔۔۔ وطن کے نام