مجھے ڈر ہے
Poet: Imran Malik By: imran, Islamabadنجانے کون سا ڈر ہے
 نجانے کون سی ضد ہے
 یہ ڈر ہے یا کوئی ضد ہے
 معّمہ حل طلب ہے یہ
 مگر ہے آرزو دل کی
 کہ میں تاریخ کے ماتھے پہ چند الفاظ لکھ ڈالوں
 جو بعد از مرگ بھی دنیا مرے اشعار دہرائے
 مرے افکار کی ضُو سے کوئی تبدیلی آجائے
 یہی خواہش مرے دل میں بڑی ہلچل مچاتی ہے
 مجھے مجبور کرتی ہے
 قلم سے جو بھی میں لکھوں وہ حق کی ترجمانی ہو
 کہ آنے والی نسلیں بھی مجھے دوشی نہ ٹھہرائیں
 وہ باتوں میں نہ یہ کہہ دیں
 بکاو تھا ہوس کا مارا شاعر تھامجھے ڈر ہے
 مجھے ڈر ہے
 کہ محنت فیض و جالب کی کہیں زائل نہ ہو جائے
 جو تھا اقبال کا شاھیں کہیں پھر سے نہ سو جائے
 مجھے ڈر ہے
 کہ نسلِ نو ترے بچے مرے بچے
 جو بعد از مرگ قبروں پر دعا کے واسطے آئیں
 وہ جیون سے نہ تنگ آکر لحد پر تیری اور میری
 کہیں جوتے نہ دیں ماریں
 کہ کیسے ملک میں تم نے دیا ہے آشیاں ہم کو
 ہزار اس سے تو بہتر تھا نہ پیدا ہی یہاں ہوتے
 نہ یہ حالات ہم تکتے نہ ایسے پھوٹ کر روتے
 یہ اپنا دیس ہے لوگو مرے اسلاف نے اس کے لیےقربانیاں د یں ہیں
 لہو اپنا بہایا ہے بہت سا رنج اٹھایا ہے
 تو کیسے بھیٹریوں کے ہاتھ میں اپنا وطن دے دوں
 جسے خوں تک پلایا ہے وہ سارا میں چمن دے دوں
 کہیں ایسا نہ ہو جائے تباہی رب کی جانب سے مقدر میں لکھی جائے
 کوئِی اقدام کر ڈالو جو باقی تن میں ہیں سانسیں
 وطن کے نام کر ڈالو۔۔۔ وطن کے نام
اے میرے وطن کی مٹی تیرے جانثاروں کو سلام
خاک و خون میں لپٹے ہوئے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے شہیدوں کو سلام
یہ سبز ہلالی پرچم لہراتا رہے تا قیامت با خدا
فضائوں کے محفظ سمندر کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروشان وطن
تمہارے گھر کے آنگن کو اور تمہاری ماؤں کو سلام
ہمیں کمزور نا سمجھنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاہنے والے ہیں ہم اور اللہ کے نام سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاوں گا کبھی میں فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
خاک و خوں میں لپٹے ہوے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے ان شہیدوں کو سلام
یہ سبز حلالی پرچم لہراتا رہے گا تا قیامت باخدا
فضاؤں کے مہافظ سمندروں کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروش وطن
تیرے گھر کے آنگن کو اور تیری مآؤں کو سلام
ھمیں کمزور نہ سمھجنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاھنے والے ہیں ھم الله کے نام کو سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاؤں گا کبھی اے فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
تجھ سے سپر، کوئی نہیں
اقبال نگیں ہے، تیرا مکیں
تجھ پر سایۂ عرشِ بریں
تو ہی نغمۂ حق، تو ہی مرا دین
تو سرزمینِ عشق، تو حق الیقین
اے مہرِ زمیں! اے نصرِ مبیں
"إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا"
نہ لبھا سکے جسے، زلفِ حسیں
ایسے سپاہی! ہم مردِ صحرائی
اے ابنِ قاسم! تجھ کو قسم
رکھنا بھرم، شانِ جبیں
ہے فخر اپنا: بابر، غوری اور شاہین
توڑیں گے ترا زعم، اے عدوِ مبین
اے خدا! کر عطا، صبر و یقین
قائم رہے نظامِ نورِ مبین
مسلمانوں کی مسلمانی سے عاری ہے قدس کی بیٹی
اسرائیل کی کتے بھاگتے ہیں ہاتھ میں پتھر دیکھ کر
جیسے کہ اسلحے سے لیس کوئی شکاری ہے قدس کی بیٹی
وہ جانتی ہے نہ ایوبی نہ قاسم نہ طارق آئے گا کوئی
نہیں اب کسی مجاہد کی انتظاری ہے قدس کی بیٹی
دیکھ لو عاؔمر کہ لرزاں ہے اب یزید وقت
مثل زینبؓ جم کہ کھڑی ہے ہماری قدس کی بیٹی
کبھی اک لمحے کو سوچو
جس انقلاب کی خاطر
سر پہ باندھ کر کفنی
گھروں سے تم جو نکلے ہو
اُس انقلاب کا عنصر
کوئی سا اک بھی تم میں ہے؟
بازار لوٹ کے اپنے
دکانوں کو جلا دینا
ریاست کے ستونوں کو
بِنا سوچے گرا دینا
تباہی ہی تباہی ہے
خرابی ہی خرابی ہے
نہیں کچھ انقلابی ہے
نہیں یہ انقلابی ہے
سیاسی بُت کی چاہت میں
ریاست سے کیوں لڑتے ہو؟
فقط کم عقلی ہے یہ تو
جو آپس میں جھگڑتے ہو
گر انقلاب لانا ہے
تو پہلے خود میں ڈھونڈو تم
تمہارے بُت کے اندر ہی
جو شخص اک سانس لیتا ہے
کیا وہ سچ میں زندہ ہے؟
وہ اپنے قولوں، عملوں پر
راضی یا شرمندہ ہے؟
بِنا اصلاح کے اپنی
انقلاب آیا نہیں کرتے
انقلاب دل سے اُٹھتا ہے
اِسے لایا نہیں کرتے








 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 