محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
Poet: Deewan-e-Ghalib By: ghayas, khi
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا 
 یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا 
 
 رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے 
 یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا 
 
 تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز 
 میں اور دکھ تری مژہ ہائے دراز کا 
 
 صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا وگرنہ میں 
 طعمہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا 
 
 ہیں بسکہ جوش بادہ سے شیشے اچھل رہے 
 ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا 
 
 کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز 
 ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا 
 
 تاراج کاوش غم ہجراں ہوا اسدؔ 
 سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
More Mirza Ghalib Poetry






