محفل میں بار بار جو ہم پر نظر گئی
Poet: وقاص By: وقاص, Chiniotمحفل میں بار بار جو ہم پر نظر گئی
 ہر دل پہ جیسے لہر قیامت گزر گئی
 
 کر کے امید زندگی جیتے رہے ہیں ہم
 اب کہ امید زندگی جانے کدھر گئی
 
 ملنا تمہارا جیسے بہاروں کا انبساط
 پوچھا جو میرا حال تو قسمت سنور گئی
 
 وہ کیا خبر تھی جس نے ہمیں بے خبر کیا
 وہ کیا نظر تھی زخم جگر تک اتر گئی
 
 کیسے ہوئے فریفتہ یہ راز ہی رہا
 شاید نگاہ یار بڑا کام کر گئی
 
 الجھے ہیں اس طرح سے غم روزگار میں
 لذت غم فراق کی شام و سحر گئی
 
 اے حسن تیرے چاہنے والوں کی خیر ہو
 اے عشق تیری آہ و فغاں بے اثر گئی
 
 ہر دل سلگ رہا ہے محبت کی آگ میں
 جانے بلائے عشق بھی کس کس کے گھر گئی
 
 بدنام کر گئی ہے ہمیں رسم دلبری
 جو بھی نظر اٹھی ہے وہ ہم پر ٹھہر گئی
 
 میری کتاب غم کا بھی قصہ ہوا تمام
 اس شہر نا شناس میں وہ دربدر گئی
 
 برہمؔ گیا ہے کام سے دل بھی ہمارے ساتھ
 آیا خیال یار تو بھی آنکھ بھر گئی
  
More Aftab Ranjha Poetry
محفل میں بار بار جو ہم پر نظر گئی محفل میں بار بار جو ہم پر نظر گئی
ہر دل پہ جیسے لہر قیامت گزر گئی
کر کے امید زندگی جیتے رہے ہیں ہم
اب کہ امید زندگی جانے کدھر گئی
ملنا تمہارا جیسے بہاروں کا انبساط
پوچھا جو میرا حال تو قسمت سنور گئی
وہ کیا خبر تھی جس نے ہمیں بے خبر کیا
وہ کیا نظر تھی زخم جگر تک اتر گئی
کیسے ہوئے فریفتہ یہ راز ہی رہا
شاید نگاہ یار بڑا کام کر گئی
الجھے ہیں اس طرح سے غم روزگار میں
لذت غم فراق کی شام و سحر گئی
اے حسن تیرے چاہنے والوں کی خیر ہو
اے عشق تیری آہ و فغاں بے اثر گئی
ہر دل سلگ رہا ہے محبت کی آگ میں
جانے بلائے عشق بھی کس کس کے گھر گئی
بدنام کر گئی ہے ہمیں رسم دلبری
جو بھی نظر اٹھی ہے وہ ہم پر ٹھہر گئی
میری کتاب غم کا بھی قصہ ہوا تمام
اس شہر نا شناس میں وہ دربدر گئی
برہمؔ گیا ہے کام سے دل بھی ہمارے ساتھ
آیا خیال یار تو بھی آنکھ بھر گئی
 
ہر دل پہ جیسے لہر قیامت گزر گئی
کر کے امید زندگی جیتے رہے ہیں ہم
اب کہ امید زندگی جانے کدھر گئی
ملنا تمہارا جیسے بہاروں کا انبساط
پوچھا جو میرا حال تو قسمت سنور گئی
وہ کیا خبر تھی جس نے ہمیں بے خبر کیا
وہ کیا نظر تھی زخم جگر تک اتر گئی
کیسے ہوئے فریفتہ یہ راز ہی رہا
شاید نگاہ یار بڑا کام کر گئی
الجھے ہیں اس طرح سے غم روزگار میں
لذت غم فراق کی شام و سحر گئی
اے حسن تیرے چاہنے والوں کی خیر ہو
اے عشق تیری آہ و فغاں بے اثر گئی
ہر دل سلگ رہا ہے محبت کی آگ میں
جانے بلائے عشق بھی کس کس کے گھر گئی
بدنام کر گئی ہے ہمیں رسم دلبری
جو بھی نظر اٹھی ہے وہ ہم پر ٹھہر گئی
میری کتاب غم کا بھی قصہ ہوا تمام
اس شہر نا شناس میں وہ دربدر گئی
برہمؔ گیا ہے کام سے دل بھی ہمارے ساتھ
آیا خیال یار تو بھی آنکھ بھر گئی
وقاص






