مخاطب ہے آج قدرت ہر زیر عتاب سے
انساں دہق رہا ہے اک التہاب سے
مٹا دو ظلم کو تم آج غیرت کی تاب سے
کہ لرزاں ہوں بت کدے اس انقلاب سے
سورج سے روشنی لو نور آفتاب سے
منزل صرف ملے گی میری کتاب سے
رحمت لٹا دوں گا میں اپنی جناب سے
گر پاؤ گے ہدایت رسالت مآب سے
بیدار گر ہوئے نہ غفلت کے خواب سے
بچ نہ سکو گے پھر تم میرے عذاب سے