زمانہ ہے اُن سے طلب گارِ بخشش
بنایا اُنھیں رب نے مختارِ بخشش
چلے آو منہ مانگی پاو مرادیں
سجا ہے مدینہ میں دربارِ بخشش
مرے مصطفیٰ جانِ رحمت کے صدقے
پھلا پھولا دنیا میں گلزارِ بخشش
وہ عالم میں نفسی کے ، اِنی لہا سے
کریں گے یوں محشر میں اظہارِ بخشش
وہی قاسمِ نعمتِ کبریا ہیں
انھیں سے ہُوَیدا ہیں اَسرارِ بخشش
مُشاہدؔ لحد کے سرہانے وہ آکر
بسائیں گے ظلمت میں انوارِ بخشش