اُٹھا ہے ولولۂ شوقِ مدحتِ عارض
بیان کر اے قلم وصفِ رحمتِ عارض
جبینِ پاک ہے انوار کا خزانہ ایک
اور آئینے سے سوا حُسن و طلعتِ عارِض
ہے بوئے باغِ جہاں زُلفِ مصطفیٰ کے سبب
تو بوئے خلد ہے مرہونِ نکہتِ عارض
صحف کے پاروں میں تمثالِ عارِضِ انور
بیان کیسے کرے کوئی رنگتِ عارِض
بروزِ حشر مُشاہدؔ کا ہے عقیدہ یہ
بچاے گی ہمیں گرمی سے برکتِ عارِض