نوکِ خامہ نے کھلائے جب کہ مدحت کے گلاب
کھل اُٹھے بزمِ الم میں تب مَسرّت کے گلاب
آپ آئے تو صنم خانوں میں آیا زلزلہ
ہوگئے خوشبو بداماں ہر سو وحدت کے گلاب
دشتِ ویراں کی طرح ہو قبر اُن کی خار زار
ہوں نہ جن کے دل میں شاہِ دیں کی عظمت کے گلاب
سرخ روئی دونوں عالم کی اگر مقصود ہے
زیست کے حاصل بنیں آقا کی سیرت کے گلاب
نعت لکھناہے مُشاہدؔ ، تو رہے پیشِ نظر
عشق و الفت کے کنول ، حُسنِ شریعت کے گلاب