مدعی میری صفائے دل سے ہوتا ہے خجل ہے تماشا‘ زشت رویوں کا عتاب آئینے پر دل کو توڑا جوشِ بے تابی سے‘ غالب! کیا کیا؟ رکھ دیا پہلو بہ وقت اضطراب آئینے پر