مرزا غالبؔ
Poet: مرزا غالبؔ By: Adnan, Rawalpindiفکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا
تھا سراپا روح تو بزم سخن پیکر ترا
زیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
محفل ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار
جس طرح ندی کے نغموں سے سکوت کوہسار
تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار
زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں
تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر
شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچۂ دلی گل شیراز پر
آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
لطف گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
ہائے اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں
آہ اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بیں
گیسوئے اردو ابھی منت پزیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزئ پروانہ ہے
اے جہان آباد اے گہوارۂ علم و ہنر
ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام در
ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر
دفن تجھ میں کوئی فخر روزگار ایسا بھی ہے
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے






