مری نظر میں خاک تیرے آئنے پہ گرد ہے
یہ چاند کتنا زرد ہے یہ رات کتنی سرد ہے
کبھی کبھی تو یوں لگا کہ ہم سبھی مشین ہیں
تمام شہر میں نہ کوئی زن نہ کوئی مرد ہے
خدا کی نظموں کی کتاب ساری کائنات ہے
غزل کے شعر کی طرح ہر ایک فرد فرد ہے
حیات آج بھی کنیز ہے حضور جبر میں
جو زندگی کو جیت لے وہ زندگی کا مرد ہے
اسے تبرک حیات کہہ کے پلکوں پر رکھوں
اگر مجھے یقین ہو یہ راستے کی گرد ہے
وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں
انہیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے