دسمبر 2011ئ
پیامِ نو پہ ہیں رقصاں اُٹھائے ہاتھ جواں
یہ انقلاب کے نعرے یہ پرچموں کی بہار
نوید دورِ ترقی ، یہ پیامِ اُمید
یہ کیسے خواب ہیں آنکھوں میں کیسا جوش و خمار
مزارِ قائدؒ کے سائے میں بیٹھا ایک بوڑھا
ہیں جس کی آنکھوں میں رقصاں مناظرِ دوراں
ہیں دیکھے جس نے یہ منظر ہزار بار یہاں
بِتائی جس نے جوانی انہی حوالوں سے
تھے جس نے خواب بھی دیکھے نئے اُجالوں کے
یہ آج پھر ہے تماشائی انہی حوالوں کا
جواب ڈھونڈنے آیا انہی سوالوں کا
نظامِ چرخ ہے بدلا ہزار بار مگر
مگر نہ بدلا مقدّر کبھی غریبوں کا
نظامِ جبر کے قیدی نہ چُھٹ سکے ہیں کبھی
نہ ان گھروندوں سے نکلی سیاہ رات کبھی
نظامِ زر ، یہ جاگیریں ، نشانِ غدّاری
ہر اِک نظام پہ قابض انہی کی اولادیں
نئے سے رُوپ میں اب پھر ہمیں مخاطب ہیں
’ ہماری ارضِ وطن کے یہی محافظ ہیں ؟ ‘
ہر اِک بار نیا رُوپ دھار آتے ہیں
وہی شکاری نیا جال ساتھ لاتے ہیں
یہ بوڑھا آج بھی آیا مزارِ قائدؒ پر
جوان جسموں کی آنکھوں میں خواب دیکھتا ہے
’ جنون ‘ جوش میں رقصاں ، مگر وہ سوچتا ہے
اگر نہ پائے یہ تعبیر اپنے خوابوں کی
اگر سُراغ ملے نہ نشانِ منزل کے
اگر بھٹکتے رہے یونہی پھر سرابوں میں
علاج گردشِ دوراں اگر بہم نہ ہوئے
یہ سارے درد کے موسم اگر ختم نہ ہوئے
میری طرح کسی دن مزارِ قائدؒ پر
جوان یہ جسم بڑھاپے کی اوڑھنی لے کر
کسی کی گُونجتی تقریر سُن رہے ہوں گے
یہاں پہ اور کوئی محوِ رقص ہوں گے یونہی
کس کے سِحرِ بیاں پہ وہ خُوش گُماں ہوں گے
دکھاتا ہو گا جو خوابوں کے خوشنما منظر
کسی نے اور بھرا ہو گا سوانگ رہبر کا
نئے سرابوں کے پھر اور قافلے ہوں گے
صلیبِ درد کے پھر اور سلسلے ہوں گے
ایک اور سفر شروع ہو گا پھر اندھیروں کا
سراغ ڈھونڈنا ہو گا ہمیں سویروں کا