دی غریبوں نے یہ دہائی، ہائے مہنگائی
شامت امیروں کی بھی آئی، ہائے مہنگائی
تنخواہ جو ملی کل، آج ختم ہو گئی
اٹھنی بھی بچ نہ پائی، ہائے مہنگائی
جو کھانا کھلائے بن، کبھی چھوڑتا نہیں تھا
اس نے چائے نہ پلائی، ہائے مہنگائی
نئی دلہن اس طرح سے، شکوہ کرے گی اب
نہیں دیتے ہیں منہ دکھائی، ہائے مہنگائی
ازان دینے کھڑا ہوا جب، مؤذن عصر کے وقت
مسجد سے صدا آئی، ہائے مہنگائی
جوک ایسا سنا دیا تھا ہنسنا تھا اس پے لازم
وہ فقط مسکرائی، ہائے مہنگائی
ڈھونڈتا رہا بازار میں صبح سے شام تک
پر چینی مل نہ پائی، ہائے مہنگائی
بھینسوں کو بھی شاید چھوڑا نہیں ہے اس نے
نہیں ہے دودھ میں ملائی، ہائے مہنگائی
قربانی کا جانور بھی اب “چائنا“کا ہو
یہ بات دل میں آئی، ہائے مہنگائی
اک ہفتہ ہو گیا فہیم، تیری طبعیت خراب ہے
پر تو نے دوا نہ کھائی، ہائے مہنگائی