حقیقتوں کی حقیقت کو آزمایا نہیں
میں کائنات کے بھیدوں کو جان پایا نہیں
طلسم ہوشربا ہی ہے کائنات و حیات
معاملہ تو کبھی بھی سمجھ میں آیا نہیں
ہر ایک راز میں پوشیدہ راز ہیں کتنے
کسی نے رازوں سے پردہ کبھی اٹھایا نہیں
یہ سب نہ سوچوں یہی سوچنے لگا ہوں میں
کہ میری عقل پہ اب تک جنوں تو چھایا نہیں
مگر مجھے ہے ودیعت ہی ایسی کچھ فطرت
کہ عام سطح پہ خود کو کبھی بھی لایا نہیں
مشاہدہ نہ کروں اس کی ہر نشانی کا
نہیں خدا نے مجھے اس طرح بنایا نہیں
مصوری بھی ہے کیا اس بڑے مصور کی
ہے چیز کون سی جس میں نظر وہ آیا نہیں
ہاں ان خیالوں میں اک تیرا بھی خیال رہا
تجھے اے دوست کبھی دل نے تو بھلایا نہیں
رہے جو عشق مجازی کے ساتھ عشق رسول ( صلی الله علیہ وسلم )
تو ایسے نفس نے کچھ ظلم خود پہ ڈھایا نہیں
کبھی بھی پا نہ سکو گے خدا کو تم زاہد
نبی کے نام پہ جاں کو اگر لٹایا نہیں