یہ جو دربد ہیں مسلم سب
اور کشمیر کی سب قیدی مائیں
وہ سوریا کے مقتول بچے
اور ایغور کے مسلم بے بس سب
جب پکار رہے تھے اے مسلم !
تو ہماری مدد کو آبھی جا
تو ہماری مدد کو آبھی جا
وہ غزہ کے محصور بزرگ
اور روہنگیا کی لاچار بہنیں
وہ انڈیا میں لٹی عصمتیں
اور چیختیں حوا کی بیٹیاں
جب ہوگئے مایوس ہم سے
تب اللہ کو پکارا انہوں نے
کہا انہوں نے پھر رب سے یہ
کوئی ہماری مدد کو نا آیا
سب اپنے مفاد کے قیدی ہیں
کوئی ہماری مدد کو نا آیا
جب عافیہ نے پکارا اے اللہ !
خالد نے کہا اب آبھی جا
ہم تیرے ہی دین کے نام لیوا
تو گر اب بھی مدد کو نا آیا
یہ کافر دل میں سوچیں گے
کہ ہیں کتنے بے بس یہ مسلماں
کہ خدا ان کی مدد کو نا آیا
یہ ہمیں بہت ستائیں گے
اور زندہ ہمیں کھا جائیں گے
پھر جو پیچھے رہیں گے اے خدا
وہ بس نام کے رہیں گے مسلماں
پھر جب خدا کو میرے جلال آیا
پھر جلال میں جب وہ قہار آیا
تو اس نے کہا ایک مخلوق سے
جاکہ سب کو سبق سکھا،تو جا
اور یہ بھی بتادے سب کو تم
کہ تم بے بس تھے، تم بے بس ہو
اور رہوگے ہمیشہ بے بس تم
یہ جو وائرس ہر سو پھیلا ہے
جس نے کردیا بے بس سب کو
یہ عذاب ہی تو ہے جو اللہ نے
دنیا کو ڈرانے بھیجا ہے
یہ مخلوق ہے اللہ کی ادنی سی
جس نے سب کچھ بند کردیا
جس سائنس پہ دنیا مغرور بہت
اس سائنس نے گھٹنے جب ٹیک دیے
تو پھر کوئی تدبیر نہ کام آیا
تو پھر کوئی تدبیر نہ کام آیا
تو ذرا سوچ تو لیں تو اے انسان
کہ تو ہے کتنا کمزور نادان
کل جو ملنے کو بے تاب بہت
آج اپنوں سے بھی تو چھڑائے جان
جب ہوگئی حیثیت معلوم
تو پھر کیسی اکڑ اور کیسا غرور
بس آجا پلٹ اب آبھی جا
نہیں تجھ سے زیادہ کوئی مجبور
سب ظلم و ستم تو چھوڑ دیں
مسلم کو ستانا چھوڑ دیں
اسلام کو مٹانا چھوڑ دیں
کہ اسی میں تیری عافیت ہے
کہ اسی میں تیری عافیت ہے