معمولی باتوں پہ ہم آسماں سرپہ اٹھایانہیں کرتے
سنا ہےمحترمہ پردیسیوں کو منہ لگایا نہیں کرتے
ہماری زندگی میں وہ بنا اجازت چلےآتےہیں
ہم دستک دہیےبنا ان کےگھر جایانہیں کرتے
جس دریا میں کوئی جواں مچھلی نظرنہ آئے
ایسی جگہ ہم اپنا جال کبھی لگایا نہیں کرتے
ہماراتخیل ہمارےسخن کی پہچان ہےمحترمہ
اس کےبال وپر کاٹ کرہم اڑایا نہیں کرتے
جو مسافر پردیس کواپنادیس بنا لیتےہیں
پھر وہ اپنےوطن لوٹ کر آیا نہیں کرتے