ملا بھی زیست میں کیا رنج رہ گزار سے کم
سو اپنا شوق سفر بھی نہیں غبار سے کم
ترے فراق میں دل کا عجیب عالم ہے
نہ کچھ خمار سے بڑھ کر نہ کچھ خمار سے کم
ہنسی خوشی کی رفاقت کسی سے کیا چاہیں
یہاں تو ملتا نہیں کوئی غم گسار سے کم
وہ منتظر ہے یقیناً ہوائے سرسر کا
جو حبس ہو نہ سکا باد نوبہار سے کم
بلندیوں کے سفر میں قدم زمیں پہ رہیں
یہ تخت و تاج بھی ہوتے نہیں ہیں دار سے کم
عجیب رنگوں سے مجھ کو سنوار دیتی ہے
کہ وہ نگاہ ستائش نہیں سنگھار سے کم
مری انا ہی سدا درمیاں رہی حائل
وگرنہ کچھ بھی نہیں میرے اختیار سے کم
وہ جنگ جس میں مقابل رہے ضمیر مرا
مجھے وہ جیت بھی عنبرؔ نہ ہوگی ہار سے کم