ملا ہے عشق محم سے دجلہ جاں کو
يہ مد و جزر، يہ سوز و الم، يہ جوش و خروش
جو گونگوں کو زباں بخشيں وہ ايسے لفظ بھی بولے
جو اندھوں کو نظر آئيں وہ شمعيں بھی جلائے وہ
اسی طائف پر اپني رحمتوں کے پھول برسائے
جہاں باران سنگ دشمناں سے زخم کھائے وہ
اب بھی ہر اک اذاں ميں تیری بازگشت ہے
اب بھی ہر اک سحر ہے ترم نام کی سفر
سن اے حصار رنگ و بو بنام عشق مصطفیٰ
نہ ميں تیرے قفس ميں تھا نہ ميں تیرے قفس ميں ہوں
جلا ہے جب سے روح ميں چراغ مدحت نبی
نہ ظلمتوں کا خود ہے نہ آندھيوں کے بس ميں