Add Poetry

ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں

Poet: مرزا غالب By: Aqib, Swat

ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں

کب سے ہوں کیا بتاؤں جہان خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں

تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

جو منکر وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بد گماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں

میں مضطرب ہوں وصل میں خوف رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں

میں اور حظ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں

ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرف نقاب میں

لاکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاہ کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں

وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے
جس نالہ سے شگاف پڑے آفتاب میں

وہ سحر مدعا طلبی میں نہ کام آئے
جس سحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں

غالبؔ چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابر و شب ماہتاب میں

Rate it:
Views: 2075
26 Oct, 2021
Related Tags on Mirza Ghalib Poetry
Load More Tags
More Mirza Ghalib Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets