ملے بہت پر تجھ سا دوبارا کوئی نہ پیارا ملا
پھنسے منجدھار میں اسے کبھی دوبارا کوئی نہ کنارا ملا
آزادی قفس سے جو اڑا سمجھا آزاد ہوا ہوں میں
تھی تلاش بہت مجھے پر مجھ سا اکیلا کوئی نہ بچارا ملا
آواز تو میں دیتا رہا پر خود لوٹ کے آنے کی
ویرانیاں تھی دور دور شناسا کوئی نہ ہمارا ملا
پیروں کا دیکھے یہ شوق چھاؤں بغیر رہتے نہیں
اداسی حد سے گزر گئی تھی جب صحرا کوئی نہ یارا ملا
اب تو چلو کچھ میاں بات مان گے ہو تم
کچے کھڑے کی جیت ہوئی جب کشتی کو کنارا کوئی نہ سہارا ملا
حد سے گزر گیا تھا قلزم جوش جنوں کی تھی تپش
ایسا ملا خدا مجھے پھر خدا کوئی نہ دوبارا ملا