Add Poetry

مل مجھ سے اے پری تجھے قرآن کی قسم

Poet: انشاء اللہ خان انشا By: Ali, Hyderabad
Mil Mujh Se Ae Pari Tujhe Quran Ki Qasam

مل مجھ سے اے پری تجھے قرآن کی قسم

دیتا ہوں تجھ کو تخت سلیمان کی قسم

کر و بیوں کی تجھ کو قسم اور عرش کی

جبریل کی قسم تجھے رضوان کی قسم

طوبیٰ کی سلسبیل کی کوثر کے جام کی

حور و قصور و جنت و غلمان کی قسم

روح القدس کی تجھ کو قسم اور مسیح کی

مریم کے تجھ کو عفت دامان کی قسم

توریت کی قسم قسم انجیل کی تجھے

تجھ کو قسم زبور کی فرقان کی قسم

تجھ کو محمد عربی کی قسم ہے اور

مولا علی کی شاہ خراسان کی قسم

ملت میں جس کی تو ہوئی اس کی قسم تجھے

اور اپنے دین مذہب و ایمان کی قسم

داماں کو میری ہاتھ سے اس رات مت جھٹک

تجھ کو سحر کے چاک گریبان کی قسم

مدت سے تیری چاہ ذقن میں غریق ہوں

باللہ مجھ کو یوسف کنعان کی قسم

قیدی ہوں میں ترا بخدا وندی‌ٔ خدا

اور اس عزیز مصر کے زندان کی قسم

موسیٰ کی ہے قسم تجھے اور کوہ طور کی

نور و فروغ جلوۂ لمعان کی قسم

نرگس کی آنکھ کی قسم اور گل کے کان کی

تجھ کو سر عزیز گلستاں کی قسم

تجھ کو قسم ہے غنچۂ زنبق کے ناک کی

اور شور‌ عندلیب غزلخوان کی قسم

سونے کی گائے کی قسم اور رود نیل کی

لیلیٰ کی ہے تجھے صف مژگان کی قسم

ایسی بڑی قسم بھی نہ مانے تو ہے تجھے

تجھ کو اسی کے شوکت‌ ذیشان کی قسم

دیو‌ سفید کی قسم اور کوہ قاف کی

باغ ارم کی اور پرستان کی قسم

لونا چماری کی قسم اور کلو عبیر کی

کالی بلا کی غول بیابان کی قسم

قسمیں تو ساری ہو چکیں باقی رہی ہے اب

پیپل تلے کے بھتنے کی شیطان کی قسم

ہاں پھر تو کہیو ہائے وہ کس طرح ہوئے غضب

انشاؔ نہ چھیڑ مجھ کو مری جان کی قسم

Rate it:
Views: 744
01 Feb, 2021
More Insha Allah Khan Poetry
بھلے آدمی کہیں باز آ ارے اس پری کے سہاگ سے بھلے آدمی کہیں باز آ ارے اس پری کے سہاگ سے
کہ بنا ہوا ہو جو خاک سے اسے کیا مناسبت آگ سے
بہت اپنی تاک بلند تھی کوئی بیس گز کی کمند تھی
پر اچھال پھاندا وہ بند تھی ترے چوکیداروں کی جاگ سے
بہت آئے مہرے کڑے کڑے وہ جو منڈ جی تھے بڑے بڑے
ولے ایسے تو نہ نظر پڑے کہ جو صاف پاک ہوں لاگ سے
وہ سیاہ بخت جو رات کو ترے دام زلف میں پھنس گیا
اسے آ کے وہم و خیال کے لگے ڈسنے سیکڑوں ناگ سے
بھرا میں نے بندرابن میں جو ارے کشن ہوپ کا نعرہ تو
مہاراج ناچتے کودتے چلے آئے لٹ پٹی پاگ سے
لگے کہنے کھیم کُسل اسے جو علیؔ کے دھیان کے بیچ ہے
تورے دکھ دلدر جتی تھے گئے بھاگ آپ کے بھاگ سے
ہوئے عاشق ان کے ہیں مرد و زن یہ انوکھی ان کی بھی کچھ نہیں
کوئی تازہ آئے ہیں برہمن یہ جو کاشی اور پراگ سے
تجھے چاہتے نہیں ہم ہیں بس انہوں کو بھی تو تری ہوس
وہ جو بھکڑے بیر سے سو برس کے پرانے بوڑھے ہیں داگ سے
اے لو آئے آئے سوائے کچھ نہیں بات دھیان میں چڑھتی کچھ
کچھ اک ان فقیروں کی مجلسیں بھی تو ملتی جلتی ہیں بھاگ سے
مجھے کام ان کے جمال سے نہ تو ٹپّے سے نہ خیال سے
نہ تو وجد سے نہ تو حال سے نہ تو ناچ سے نہ تو راگ سے
یہ سعادت اس کو علیؔ نے دی جو وزیر اعظم ہند ہے
کہ بدولت اس کی جہان میں نہیں خوف بکری کو باگ سے
مجھے رحم آتا ہے ایسوں پر بسر اپنے کرتے ہیں وقت جو
کسی پھل سے یا کسی پھول سے کسی پات سے کسی ساگ سے
گتھی ان سروں ہی میں آ گئی مجھے اک عروس کے باس سے
ابھی انشاؔ اپنا ہو بس اگر تو لپٹ ہی جاؤں بہاگ سے
Umer
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets