میں جب سوچتی ہوں اس راہ آخرت کو
جس کی طرف لوٹ کے جانا ہے ہر ذات کو
تو نجانے کیوں کانپنے لگتی ہے میری روح
خوف و ہراس کی اک لہر چھا جاتی ہے ہر سو
ضبط تحریر میں یہ الفاظ میں لاؤں کس طرح
منظر قیامت ہے خوفناک جس طرح
جس دن ظالموں کا زور ٹوٹ جائے گا
اس روز توبہ کا دروازہ ہاتھوں سے چھوٹ جائیگا
نیکیوں سے خالی ہونگے ہمارے ہاتھ
اس روز کوئی دے گا نہ کسی کا ساتھ
تب پچھتاوے کی اک لہر گزرے گی قریب سے
پوچھے گی تو غافل کیوں رہا اپنے حبیب سے
اس وقت زباں ہماری بے جواب ہو گی
یوں ذلت و رسوائی ہماری بے حساب ہو گی
اے انسان! اگر تو بچنا چاہتا ہے ذلت و رسوائی سے
تو تھام لے رب کائنات کی رسی مضبوطی سے
یوں آخرت میں سر خروئی ملے گی تجھ کو
اور خوف ہوگا نہ کسی چیز کا تجھ کو