دل پر ہم پلکیں سجائے بیٹھے ہیں
حُسن والے تصور میں آئےبیٹھے
سجدہ نہ کر لیں دہلیز حرم پہ
سینے میں سرکار آئے بیٹھے ہیں
بوسے لیں ان کے قدموں کی تتلیوں کے
نور کے انوار آئے بیٹھے ہیں
مٹا کر ہر گمان کفر کو
صاحب ایمان آئے بیٹھے
میرے دل کو سمجھ کر گھر اپنا
میرے غریب نواز آئے بیٹھے ہیں
آزاد کر کے ہر غم سے مجھے
میرے غمگسار آئے بیٹھے ہیں
جنکے قدموں کی خاک ذات میری
میرے سر تاج آئے بیٹھے ہے
اے دل گستاخ آھستہ دھڑک
محفل جان آئے بیٹھے ہیں
مدہوش کر کے تیرے دل کو خواجہ نصیر
خود ساقی توحید آئے بیٹھے ہیں
اپنی رحمتوں کو بانٹنے کے لئے
میرے لجپال آئے بیٹھے
مانگ لے آج ان سے انہی کو تابش
تیری روح کا قرار آئے بیٹھے ہیں