موبائل پیکجز کی ہے برسات، رات بھر
بیکار مشغلوں کی ہے سوغات، رات بھر
فُرصت نہیں کہ گُفتگو ماں باپ سے بھی ہو
ہوتی رہے گی “اُن“ سے مگر بات، رات بھر
بے شرمی و ڈھٹائ کے پیغامات بے سبب
اِرسال روز کرتے ہیں بدذات، رات بھر
دھوکہ میں ایک دوُجے کو رکھتے ہیں بے طرح
جاری یونہی رہتی ہے خُرافات، رات بھر
کُچھ ایسے بد سلیقہ بھی ہوتے ہیں دوستو
بس سُنتے ہی رہتے ہیں وہ نغمات، رات بھر
اِس رتجگے کے باعث نہ چہروں پہ نُور ہے
اُلجھے ہوئے ہی رہتے ہیں خیالات، رات بھر
کیسا سنہری موقعہ ہے تعلیم کےلئے
پُوچھیں اساتذہ سے جوابات، رات بھر
اچھی ہو کوئ بات تو بیشک کریں شئیر
لیکن نہ جاگیں خواہ مخواہ، یوں رات، رات بھر
سرور کے ذہن و دل میں خلش ہے یہی فقط
ضائع کرے نہ کوئ یوں لمحات، رات بھر