اے فاخر زمانہ! یہ تھی تیری کمائی
مٹی تھی جس جگہ کی ہے وہیں پہ لوٹ آئی
اتناحسن پہ نازاں ہر سمت خود نمائی
اپنے سوا جہاں میں کچھ بھی نہ دے دکھائی
دیکھو یہ وہ تناور کتنا تھا ذور آور
لوگوں نے جس کی میت کاندھوں پہ ہے اٹھائی
مٹی تھی جس جگہ کی ہے وہیں پہ لوٹ آئی
رنگیینئے جہاں میں کتنا سما گیا تو
اس کمرہ امتحاں میں سب کچھ بھلا گیا تو
اک اوڑھنا تھا باقی فرعون کا لبادہ
بس ہو گئی اجل کی اتنے میں رونمائی
مٹی تھی جس جگہ کی ہے وہیں پہ لوٹ آئی
جاہ حشم کے جھوٹے سورج بھی ڈھل دئیے ہیں
بےنام ہی تھے آئے بےنام چل دئیے ہیں
روز حشر کے مالک نظریں تیرے کرم پہ
عاصی کی زندگی کا دامن ہے پر خطائی
مٹی تھی جس جگہ کی ہے وہیں پہ لوٹ آئی