Add Poetry

موجودہ حالات

Poet: Kamran By: Kamran, Karachi

 آندھی ہے تلاطم ہے مصیبت ہے بلا ہے
شعلے ہیں شرارے ہیں جہنم کی ہوا ہے
نفرت کا یہ موسم ہے تعصب کی فضا ہے
محشر سے بہت پہلے یہاں حشر بپا ہے
سجدے بھی کیے خاک پہ مانگی ہے دعا بھی
ناراض ہے اس قوم سے شاید کہ خدا بھی

ہر سمت یہاں نالہ و فریاد و فغاں ہے
بستی کہاں بستی ہے قیامت کا سماں ہے
دنیا کی ہے یہ شکل کہ دوزخ کا گماں ہے
اے مالکِ کونین ترا رحم کہاں ہے
برہم ہوئے انسان غم و رنج و الم سے
مایوس نہ کر اِن کو عنایت سے کرم سے

افسوس کہ آپس میں ہیں ہم بر سرِ پیکار
روتے ہیں یہاں لوگ تو خوش ہوتے ہیں اغیار
اِس قوم کو کیا جانئے کیا لگ گیا آزار
انجام سے ڈرتا ہوں کہ اچھے نہیں آ ثار
حالات سے ہر ایک ہے بے چین پریشان
اِس ملک میں چلتا ہے کسی اور کا فرمان

حیران ہوں یہ لوگ بھی انسان ہیں یا رب
جاتے ہیں جہاں موت کا سامان ہیں یا رب
چلتا ہوا پھرتا ہوا طوفان ہیں یا رب
دنیا کی نظر میں یہ مسلمان ہیں یا رب
بندے ہیں ترے دہر میں یہ کام کیا ہے
ہر دیس میں اسلام کو بدنام کیا ہے

اس طرح کے بے رحم بھی ہوتے ہیں مسلمان
دکھ درد سے بےحس ہیں کہ جیسے کوئی بے جان
دیندار ہیں ایسے کہ نہیں دین کی پہچان
رکھتے ہیں تمنا کہ ہر اک شہر ہو سنسان
کوتاہی افکار ہے اور ذہن ہیں بیمار
دوزخ کے ہیں معمار یہ جنت کے طلبگار

ظالم ہیں کہ مظلوم ہیں کیا جانئے کیا ہیں
یہ اہلِ ستم ہیں کہ گرفتارِ بلا ہیں
بیداد کی تصویر ہیں نفرت کی ادا ہیں
بت خانہ عالم میں پرستارِ خدا ہیں
مرنے کے سوا کوئی تمنا نہیں رکھتے
بیمار ہیں پر شوقِ مسیحا نہیں رکھتے

گزری ہے کچھ ایسی کہ زمانے سے ہیں بیزار
پھولوں سے نہیں گلشنِ ہستی میں سروکار
ہر موجِ صبا کرتی ہے اک درد کو بیدار
مرنے کو ہیں تیا ر یہ نا واقفِ اسرار
پیدا ہوئے جس دن سے مرے ہیں نہ جئے ہیں
بے خوف و خطر جسموں سے بم باندھ لئے ہیں

جا کر کسی مسجد میں اڑا دیتے ہیں خود کو
بچوں کے سکولوں میں جلا دیتے ہیں خود کو
قاتل ہیں کچھ ایسے کہ مٹا دیتے ہیں خود کو
نفرت کی یہ حد ہے کہ بھلا دیتے ہیں خود کو
مل جائے گا کیا اِن کو اگر سوگ بہت ہوں
مرتے ہیں وہاں جا کے جہاں لوگ بہت ہوں

مقصد ہے کہ شہروں میں تباہی سی مچا دیں
اونچی ہیں سروں سے جو عمارات گرا دیں
بارود کے شعلوں میں گلستاں کو جلا دیں
مٹنا ہے اگر خود تو ہر اک چیز مٹا دیں
جیتے رہے کچھ اور تو کیا اِن کو ملے گا
وہ زخم ہے دل پر نہ مٹے گا نہ سلے گا

مانا کہ بڑے قہر سے گزرے ہیں بچارے
ماں باپ بہن بھائی مرے جنگ میں سارے
بمباریاں اِن پر ہوئیں برسے ہیں شرارے
احباب جو باقی تھے وہ جنت کو سدھارے
دو بار قیامت تو بپا ہو نہیں سکتی
دکھ ایسے ملے ہیں کہ دوا ہو نہیں سکتی

کس سمت کو جانا ہے بتاتا ہے کوئی اور
یہ راہِ ستم اِن کو دکھاتا ہے کوئی اور
مرنے کے یہ انداز سکھاتا ہے کوئی اور
آگ اپنی ہے پر اِس کو لگاتا ہے کوئی اور
ناقص ہیں جو چلتے ہیں سہارے پہ کسی کے
سب کارِ نمایاں ہیں اشارے پہ کسی کے

دنیا نے ہمیں جو بھی کہا مان لیا ہے
حکام نے امداد کا احسان لیا ہے
خیرات پہ جینا ہے یہی ٹھان لیا ہے
غیروں نے ہر اک رمز کو پہچان لیا ہے
مسجد میں یونہی جاتے ہیں راحت کے پجاری
پیسوں سے یہ بن جاتے ہیں ظالم کے حواری

رستہ کوئی واضح ہے نہ منزل کا نشاں ہے
سب نفع کے پیچھے ہیں یہی سب کا زیاں ہے
سونے کی نظر ہے یہاں پیسے کی زباں ہے
ارزاں ہے کوئی چیز تو اک خواب گراں ہے
الجھی ہوئی باتوں میں بہت پیچ ہیں خم ہیں
بت خانہ مذہب میں تخیل کے صنم ہیں

لازم ہیں ترقی کے لئے صنعت و ا یجاد
اب علم پہ ہے قوتِ اقوام کی بنیاد
ہوتی ہے سدا مفلس و کمزور پہ بیداد
ہم قیدِ غلامی میں ہیں اب تک نہیں آزاد
یہ بات نہ سمجھیں گے اسیرانِ روایات
جاری ہیں لبِ واعظ و ملا پہ حکایات

اوپر کوئی دنیا ہے کہ حوروں سے بھری ہے
کیا گیسو و رخسار ہیں کیا جلوہ گری ہے
ہر شاخ گلستانِ تمنا کی ہری ہے
واعظ کا مصلیٰ نہیں لالچ کی دری ہے
کچھ فکر نہیں سب پہ مصیبت کی گھڑی ہے
دوزخ میں ہے دنیا اِسے جنت کی پڑی ہے

Rate it:
Views: 405
08 Mar, 2011
More Political Poetry
یہ وطن، یہ ہم ہر ذہن خستہ حال ہے یہ وطن
کہ تجھے ہم نے بنا دیا ہے تماشئہ سُخن
بھول گۓ سب وہ مقصد وہ عہدوفا
جس نے بنایا ہمیں ایک قوم، ایک صدا
یہ زمین جوایک کا نہیں، ہے سب کا مقام
پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان، ایک ہی ہے ہمارا نام
پُتلی تماشا ہے اصل بازی گروں کا یہ نظام
چھین لیتے ہیں سب کچھ جو نہ جھکیں ان کے سلام
حکمران سے لے کر سب کا یہی حال
فکر ہے تو بس جاگیر کی، نہ کوئی قومی خیال
ہر قبیلے میں بٹی قوم، زبانوں میں الجھی سوچ
کہ ہر ایک کہتا ہے
یہ خطہ میرا ہے، جیسے باقی سب کچھ ہو دوچ
نہ کبھی ہم اک زبان ہوۓ، نہ دل سے دل، نہ اک جان
ہم نے خود ہی توڑا ہے انقلاب کا ہر امکان
ہر 14 اگست میں کیوں نہ کہے" ہم آزاد ہیں، زندہ باد ہیں"
جب خود ظلم کے عادی ہو، غلامی پہ راضی ہو؟
اگر صرف تین بنیادی حق بھی نہ دے-
تعلیم، رہائش، اور تحفظ، ہر ایک کو، حکومت
تو پھر کس بات کی صدارت؟ کس بات کی وزارت؟
نہ یہ تخت تیرا تھا، نہ یہ وطن تیرا جائیداد
پھر کیوں ہم پر تمہیں مسلط کیا گیا بن ارشاد؟
سب قصوروار ہے
نہ صرف حکومت، نہ صرف عوام، سب کا کردار ہے
ہاتھوں سے اجاڑا ہے یہ چمن-
نہ کوئی اور آیا، نہ کوئی دوشمن، ہم ہی ہے وہ ظالم بن
خدارا! بانٹو نہ خود کو قوموں میں، مذاہب میں، دشمن کی چال پر
مت بھولو، اسی اتحاد پر ہمیں ملی تھی آزادی شام و سحر کے دام پر
اگر نہ بدلے، ہر فرد، ہر ادارہ
تو رہ جاۓ گا صرف ایک خاکہ، ایک قصہ، ایک خسارہ
 
نگین
قد آور آئینے ہمارا نام مسلماں، ادائیں کافر ہیں
حرام خور یہاں سارے لوگ ساغِر ہیں
یہاں وزارتِ عظمیٰ نشست بکتی ہے
جو ظاہراً تو بہت خوشگوار دِکھتی ہے
یہاں پہ جسم بکے، دل بکے، ضمیر بکے
وکیل و منصف و انصاف کیا، وزیر بکے
یہ وہ نگر ہے جہاں باپ بیچے بچوں کو
کہ بھیک مانگتے دیکھا ہے کتنی ماؤں کو
جو گھر میں آئے وہ مہمان بکتے دیکھے ہیں
کہ چند ٹکّوں پہ ایمان بکتے دیکھے ہیں
یہ وہ نگر ہے جہاں پر دیانتیں مفقود
فقط ہے مال بنانا عوام کا مقصود
جو حکمران ہیں بے شرم ہیں، یہ بے حس ہیں
سو محتسب بھی انہیں کے شریکِ مجلس ہیں
ادارے جو تھے وہ برباد ہوتے جاتے ہیں
نہیں ہے پیروی، ہم جن کا دن مناتے ہیں
سہولتیں تو یہاں کچھ نہیں میسر ہیں
بلوں پہ بل ہیں، یہاں حال سب کے ابتر ہیں
نہیں ہے گیس نہ بجلی نہ آب ملتا ہے
کریں جو شور تو روکھا جواب ملتا ہے
گرانیوں کا یہ عالم کہ لوگ مرنے لگے
کہ گھاٹیوں میں سبھی موت کی اترنے لگے
ہر ایک چہرے پہ زردی مَلی ملے گی یہاں
کلی بہار کی لگتا نہیں کھلے گی یہاں
وہ دیکھ ملک میں افلاس سر اٹھائے ہوئے
کہ ابر ظلم کے ہر سمت دیکھ چھائے ہوئے
یہ لوگ بھوک سے مجبور خود کشی پر ہیں
کہ دنگ ایسے میں حاکم کی بے حسی پر ہیں
یہ ملک جیسے کہیں پر پڑا ہے لوٹ کا مال
کسی کو روک سکے کب کسی میں ایسی مجال
سو لوٹنے میں لگا ہے یہاں پہ ہر کوئی
یہاں سے سکھ تو لیا سب نے بھوک ہے بوئی
بڑے نے چھوٹے کو محکوم کر کے رکھا تھا
نتیجہ دیکھ لیا سب نے یہ تعاصب کا
ہمارے لہجوں میں تلخی کا ذمہ دار ہے کون؟
امیرِ شہر نہیں ہے تو داغدار ہے کون؟
گلی گلی میں جو بکھرے ہوئے یہ لاشے ہیں
غلیظ چہرے پہ حاکم کے ہی طمانچے ہیں
بھریں یہ جیب، رعایا کو صرف ٹھینگا ہے
نظام سارا یہ آنکھوں سے گویا بھینگا ہے
ہوئے جو بعد میں آزاد سب عروج پہ ہیں
یہاں پہ دوش ہیں، الزام ایک دوج پہ ہیں
کوئی بھی کام یہاں سود بن نہیں ہوتا
جو ہوتا قائدِ اعظم تو آبگیں ہوتا
عدالتوں میں جو انصاف بکتا آیا ہے
یہ کام قائدِ اعظم کے زیرِ سایہ ہے
معالجوں کی طرف دیکھتے ہیں، روتے ہیں
یہ رقمیں لے کے بھی نیّا فقط ڈبوتے ہیں
اسی طرح سے ہو استاد یا کہ سوداگر
سبھی کے سب ہیں یہ جلّاد سارے فتنہ گر
ہو مولوی کہ ہو رنگ ساز اور زلف تراش
کہ پانیوں پہ ابھر آئے جیسے کوئی لاش
اگر تو دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے
دکان دار میں ایمان پایا جاتا ہے
وگرنہ زہر ہے بکتا بنامِ دودھ یہاں
کہ پی کے جسکو رہے گا کہیں نہ نام و نشاں
مٹھاس پھل میں بھریں لوگ کس سلیقے سے
کریں نہ ایسا تو یہ پھل ہیں پھیکے پھیکے سے
برادہ مرچ میں، پتی میں ڈالتے ہیں خون
بنا کے مال یہ جائیں گے جیسے دیرہ دون
یہ زلزلے کہ ہوں طوفان بے سبب تو نہیں
یہ سوچنا ہے کہ ناراض ہم سے ربّ تو نہیں
صحافیوں کی یہ فوجیں ہیں یا فسانہ نگار
یہ پتر کار یہ شاعر ادیب و شاہ سوار
کسی کو اپنے فرائض کا کچھ نہیں احساس
نہیں ہے چھوٹوں پہ شفقت، سفید ریش کا پاس
لگا ہے ہر کوئی اپنی دکاں بڑھانے میں
سپاہی فوج میں، پولیس اپنے تھانے میں
کرو گے کب تلک اس بات سے نظر پوشی
رہا نہ ملک تو ٹھہراؤ گے کسے دوشی
ابھی بھی وقت ہے خود اپنا احتساب کریں
کہ پورا ملک کی شادابیوں کا خواب کریں
رشیدؔ اپنا بھی کچھ احتساب ہے کہ نہیں؟
ذرا گناہ سے ہی اجتناب ہے کہ نہیں؟
رشید حسرت
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets