ایسا لگتا ہے کہ موسم بہار آ رہا ہے
اسی لیے میری شاعری میں نکھار آرہا ہے
دل کے بازار میں بھیڑ لگی رہتی ہے
یوں محسوس ہوتا ہے کوئی تہوار آ رہا ہے
ہم نے انہیں دل کی بات کہہ دی ہے
اس بےقرار دل کو اب قرار آرہا ہے
میری غزل کا مطلع سنتے ہی وہ بولی
خدا کے لیے بس کرو مجھے بخار آ رہا ہے
اس کی سہیلی میری صورت دیکھ کر بولی
اصغر مجھے تجھ پہ بےحد پیار آرہا ہے