موضوعِ کائنات بنایا گیا ھوں میں
آیاتِ زندگی میں سجایا گیا ھوں میں
ھوتا نہیں ھے کم مرا احساسِ کمتری
اتنی بلندیوں سے گرایا گیا ھوں میں
رکھا گیا ھوں داخلِ دشنام بھی کہیں
بن کر کہیں ثواب کمایا گیا ھوں میں
صیاد نے رکھا بھرم یوں اپنی ہنر کا
پر کاٹ کر ھوا میں اڑایا گیا ھوں میں
قصداً لکھا گیا مجھے حرفِ غلط کے ساتھ
عمداً ھر ایک بار مٹایا گیا ھوں میں
طوفانِ باد و باراں کے آثار دیکھ کر
کاغذ کی کشتیوں پہ بٹھایا گیا ھوں میں
تھا رھگزر سے دور، کھنڈر کی طرح، مگر
کہہ کر تجاوزات گرایا گیا ھوں میں
پہنچا تھا بزم یار میں پہچان بیچ کر
لے کر کسی کا نام بلایا گیا ھوں میں