اُفق سے ٹوٹ جاتا ہوں ستارہ ہو نہیں پاتا
وہ ہر دم پاس ہے پھر بھی ہمارا ہو نہیں پاتا
ہماری ہی بخطا ہے ہم قدر کرتے نہیں اُس کی
وگرنہ اُس کی نعمت کا شُمارا ہو نہیں پاتا
کرم اُس رب کے ہر ہر شے پہ آئینگے نظر تُم کو
خُدا کے غیر سے یہ کار سارا ہو نہیں پاتا
کبھی شر کو کرے پیدا کبھی خیروں کو برساۓ
کسی پر بھید اُس کا آشکارا ہو نہیں پاتا
لگا دو زندگی اپنی ، جوانی بھی محبت پر
مُحبّت گر حقیقی ہو خسارہ ہو نہیں پاتا
ذرا حرکت میں آجاتی ہے جب انصاف کی لاٹھی
کہیں پر ظالموں کا پھر سہارا ہو نہیں پاتا
نہ ہو اُمّت میں گر وحدت سفینہ ڈوب جاۓ گا
شکستہ ناؤ کو حاصل کنارہ ہو نہیں پاتا
کُھلی آنکھوں میں بندش ہے جہاں ہیں اور بھی پیارے
حقیقت ہے حقیقت کا نظارہ ہو نہیں پاتا
امیری ہو غریبی ہو فقیری ہو کہ شاہی ہو
سفر یہ زندگی کا پھر دوبارہ ہو نہیں پاتا