مٹاتا ہی رہا خود کو رلاتا ہی رہا خود کو
جلا کر خط محبت کے بجھاتا ہی رہا خود کو
چلا کر فون میں شب بھر کہیں جگجیت کی غزلیں
لگا کر کش میں سگریٹ کے جلاتا ہی رہا خود کو
ہوا جو قتل خوابوں کا بہا آنسو کا جو دریا
تو پھر نمکین پانی میں ڈبوتا ہی رہا خود کو
وہ شاعر تھا یا دیوانہ یا کوئی غم کا مارا تھا
اکیلا شخص تھا ایسا جو گاتا ہی رہا خود کو
جو ٹوٹا دل مسافرؔ کا تو کرکے بند کمرے کو
ترنم میں غزل پڑھ کر سناتا ہی رہا خود کو