تنفس بند ہے تالہ ہے لب کا
مرے گھر میں ہے مچھر یوں غضب کا
٭٭٭٭
یہ آتا ہے یہاں گاتا بجاتا
ہے خود بھی جاگتا سب کو جگاتا
صلہ اس کا زبردستی ہے پاتا
لہو پیتا ہے بس یہ بے ثباتا
کوئی لمحہ نہیں گزرے ہے ڈھب کا
مرے گھر میں ہے مچھر یوں غضب کا
٭٭٭٭
یہ کاٹے یوں ہے کہ ہو فرض اس کا
کوئی دینا ہو ہم نے قرض اس کا
نجانے ہم سے کیا ہے غرض اس کا
لگے ہے کاٹنا ہے مرض اس کا
ذرا دیکھو تو حالِ جاں بلب کا
مرے گھر میں ہے مچھر یوں غضب کا
٭٭٭٭
لگیں سونے تو پھر یہ اپنے سَر ہے
یہ گھوڑا ہے میاں یا کوئی خر ہے
یہ ایسا ڈھیٹ ہے ایسا نڈر ہے
کہ اس پر نرم و نازک بے اثر ہے
نہیں لمحہ کوئی سوئے ہیں شب کا
مرے گھر میں ہے مچھر یوں غضب کا
٭٭٭٭
یہ کانوں میں غزل کوئی سنائے
پھر اس کی داد یہ تالی میں پائے
کوئی غافل ہو تو اس کو نہ بھائے
یہ پیروں پڑ کے بھی اس کو جگائے
فسانہ ہے عجب جنسِ عجب کا
مرے گھر میں ہے مچھر یوں غضب کا
٭٭٭٭
لگاتا زہر کے ہے یہ جو ٹیکے
کہاں سے آتاہے جانے یہ پی کے
کٹائے ناک سے ہیں اس نے لیکے
کچھ ایسے میں میاں کیا کرنا جیکے
میاں مرجانا تھا ہم کو تو کب کا
مرے گھر میں ہے مچھر یوں غضب کا
٭٭٭٭
یہ اس گستاخ کا اس بے وضو کا
عجب انداز ہے اس فتنہ جُو کا
مرے کانوں میں آکر تُند خُو کا
سنانا فرض ہے شاید عُدُو کا
کیا دُو بھر ہوا ہے جینا سب کا
مرے گھر میں ہے مچھر یوں غضب کا
٭٭٭٭
کہ اب کے ہوں ذلیل و خوار مچھر
میں لے آیا جلیبی فار مچھر
کچھ اس سے مر گئے دو چار مچھر
نہیں ہے مانتا پر ہار مچھر
نہیں رونا یہ میرا بے سبب کا
مرے گھر میں ہے مچھر یوں غضب کا
٭٭٭٭
نہیں معلوم مادہ نے کہ نر نے
مرے چہرے پہ کاٹا کس مچھر نے
کیا مجبور یوں مچھر کے شر نے
بہتے جاتے ہیں اب آنکھوں سے جھرنے
یہ رونا دھونا ہے اس گھر میں سب کا
مرے گھر میں ہے مچھر یوں غضب کا
٭٭٭٭