مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ضعف میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
اس قدر ضبط کہاں ہے کبھی آ بھی نہ سکوں
ستم اتنا تو نہ کیجے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
لگ گئی آگ اگر گھر کو تو اندیشہ کیا
شعلۂ دل تو نہیں ہے کہ بجھا بھی نہ سکوں
تم نہ آؤ گے تو مرنے کی ہیں سو تدبیریں
موت کچھ تم تو نہیں ہو کہ بلا بھی نہ سکوں
ہنس کے بلوائیے مٹ جائے گا سب دل کا گلہ
کیا تصور ہے تمہارا کہ مٹا بھی نہ سکوں