دہلیز مصطفی پہ ہیں جو نگاہیں جھکائے ہوئے
خود نہیں آئے ہیں سرکار کے بلائے ہوئے
ابوبکر وعمر کے اور کیا ثبوتِ عشق ہو
دونوں کو آقا ہیں اپنے ساتھ سلائے ہوئے
اچھی اچھی فصلیں کاشت کر و اس کھیتی میں
پائیں گے وہی ہوں گے جو اگائے ہوئے
نہیں کریں گے پرسش فرشتے یہ کہہ کر
شفیعِ محشر ہیں دامن میں اپنے چھپائے ہوئے
ہم جیسا احسان فراموش بھی ہوگا کوئی
سب احسان نبی کے ہم ہیں بھلائے ہوئے
نہ جلائیے سکرات میں بیٹے کو ماں بولی
معاف کیا چاہے دل ہے میرا دکھائے ہوئے
شمس وقمر میں نورِاحمد ہے ستاروں میں
مہکتے پھول ہیں پسینے کی خوشبو چرائے ہوئے
پسند آیا اللہ کو میزبانی کا یہ انداز
مہمان نوازی کی دیا گھر کا بجھائے ہوئے
قریب تھا حسین رو دیتے نانا کے پاس
حاضر ہوگئی ہرنی دوسرا بچہ اٹھائے ہوئے
دوسجدوں کا اعزاز بھی ہے راز بھی
بخشوا کر امت دوزخ سے ہیں چھڑائے ہوئے
جلوہ کریں خواب میں حسرت ہے مدینہ دیکھیں
فرمائیں ٹھہرے رہو صدیقؔ یہاں نعت سنائے ہوئے