میرا انداز بیاں شو خی تحریر بھی تھا
میرے لفظوں کی وہ کھوئی ہوئی تاثیربھی تھا
بات بے بات ہنسی ہنستا دمکتا چہرہ
شوخ انداز تھا ظالم کا جو دلچیر بھی تھا
وہ بگڑ جاتا تھا ہر بات کے آغاز میں ہی
کھونا آداب تکلم مری تقصیر بھی تھا
نا ز ہر بات پر اند ا ز دکھا نا ان کا
آج سمجھے ہیں سبب عشق کی تشہیربھی تھا
اس کے اخلاق بھی تھے علم عروضی جیسے
وہ کبھی زیر،زبر پیش کی تفسیر بھی تھا
اس کے باطن کی بہر حا ل تمنا کر نا
تھا تو امکان سے باہر مری تدبیر بھی تھا
خواب آنکھوں میں بسا تھا جو کبھی مدت سے
لوگ کہتے ہیں کہ وہ ممکن تعبیر بھی تھا
کیسے کر پاتا میں اظہا ر کسی وحشت کا
جھکنا فطرت میں نہیں کیونکہ اناگیر بھی تھا
میرا ہنستا ہوا چہرہ تھا دکھانے کے لیئے
ورنہ میں ہجر کا مارا ہوا دلگیر بھی تھا
بے یقیں فیصلے کمزور ارادے بھی مرے
کانچ بن کر یہ بکھرنا میری تقدیر بھی تھا
کیسے ہوتا بھلا ناکام ستمگر وہ مرا
آخراس شوخ کےترکش میںکوئ تیربھی تھا
جان محفل ہوا کرتے تھے جہاں پر کل تک
آج پوچھاوہیں ہراک نےکوئی میر بھی تھا