مجھ پہ رحمتوں کی بارش صدا ہوتی رہی
میں جھومتا ہی رہا اس خزانے میں
جس چیز کا بھی رہا مستحق یہ وجود
اس کا ہاتھ نہ رکا نعمتیں لٹانے میں
نذر خاک ہوئے تصور تاریکی کے سب
لفظ ‘اقراء‘ جو سماء گیا آشیانے میں
غموں کی پرواہ کیوں کر کرے خاکی
لطف سرور جو گھیرے عبادت خانے میں
رگ جاں سے بھی قریب تر اس کی زات
انساں کو نہ ہو مشکل کبھی پکارنے میں
کھنکھناتی مٹی نے سوچا جب وجود کے معنی
ہر لفظ کھول کر کیا بیاں سمجھانے میں
میرے لئے تو صرف الله کافی ہے لوگوں
کہ اب نڈر ہی گھومتا پھروں زمانے میں
ہو شکر تا عمر سبحانی،اس عظیم تحفہ پر
قران و سنت جو ملی مسلم گھرانے میں