میرا دل خزینہ ہے وفاؤں کا
زور آزما لینا اپنی جفاؤں کا
تیری خوشبو کو میرے گھر کا رستہ دکھایا
شکرگذار ہوں میں ان ہواؤں کا
سچ بات کرے گا جو زمانے میں
حقدار ہو گا ناگنت سزاؤں کا
دولت والے کو ملے گی انصاف کی دولت
کچھ اثر نہ ہو گا غریب کی صداؤں کا
کشتی تو بچ جائے گی بھنور سے
ساحل تک سہارا ہے ناخداؤں کا
منزل کیوں نہ بڑھ کے قدم چومے
جن پہ سایہ ہے ماں کی دعاؤں کا
تیرے مرتبے سے کوئی سروکار نہیں
اشفاق دیوانہ ہے تیری اداؤں کا