میرا دل دیر تک سوئے ہوئے منہ کی باس تھا
جہاں تم خود رو پھول بن کر کھل اٹھی تھیں
تمہارا منور وجود
میری تاریک روح میں سرما کی دھوپ بنا
تمہاری آنکھوں کی نمی سے کئی بہاروں نے خمار پیا
جوتوں سے گری مٹی سے بنے میرے ہاتھ
تمہاری تراشیدہ گولائیوں سے مل کر
جنت کی جھیل بن گئے
تمہارے سینے سے پھوٹتی آبشار کی موسیقی نے
میری زخمی سماعت کو سریلا گیت بنا دیا
میرے بنجر تخیل میں جہاں جہاں تمہارے قدم لگے
وہاں میں نئی دنیا بن کر تخلیق ہوا
اب تم جا چکی ہو
میرے آنسوؤں کی ندی
ایک ٹہنی کو بھی شجر نہیں کر سکی
میرے ارادوں کی شبنم
ایک کونپل کو بھی پھول نہیں کر سکی
سمجھوتے کا بھیڑیا
میرے ذرے ذرے سے تمہیں نوچ رہا ہے
اور اداسی ڈوبتے سورج کی آخری کرن بن کر
میرے کندھوں پر اندھیرے کی چادر ڈال رہی ہے