اِلہام کا، ادراک کا اوتار میرا دوست
قلم، میرا شِِعار، میرا یار میرا دوست
تحریرِ ہر زمان کا راوی رہا ہے یہ
ہر دستِ اہلِ حرف کا اوزار میرا دوست
ہرگز کتابِ لوح پہ کوئی نام نہ ہوتا
ہوتا نا اگر منشئیِ کِرتار میرا دوست
جانے بِنا رضا کبھی لب کھولتا نہیں
کتنا ہے مُجھ سے وفادار میرا دوست
لاتا ہے دشتِ ورق پر سمیٹ کر جہاں
کرتا ہے رقم نِت نئے کردار میرا دوست
یہ تزکرہ گِراں ہے مگر اہلِ قلم پر
اُن کے لیے ہے ذریعہِ اظہار میرا دوست