میرا وجود تیرے تخیل کا معجزہ
کیسے میں تیری نعمتوں کو بھول جاؤں گا
مجھ سے کہے زمانہ کہ چل اور در چلیں
لیکن ترے معیار سا ہے دوسرا کہاں
سورج کی دوڑ تھام رکھی ایک ہاتھ میں
اور دوسرے میں چاند بھی تُو نے رکھا ہوا
جب دیکھتا ہوں شام کی لالی کی شوخیاں
ملتا ہے اک سکون سا ہوتا ہوں شادماں
دیتا ہے رزق سب کو تُو کرتا نہیں فرق
تُو نے کیا ہے جو بھی وہ وعدہ نبھا دیا