میرا وجود محبت کی تصویر ہو
سچی میرے خوابوں کی تعبیر ہو
ہر ہر حرف میں وہ دکھائ دے
اسکے پیکر کا عکس میری تحریر ہو
حسن تو ہے عشق شاہجہاں نہیں
کیسے اک اور تاج محل تعمیر ہو
ایسے ملنے ملانے سے کیا حاصل
درمیاں میں جب مرتبے کی لکیر ہو
تلوار کو نیام ہی میں رہنے دیجئے
جب کوئ زبان سے ہی تسخیر ہو
پھر آئے شعر کہنے سننے کا مزہ
گر سخن میں استاد غالب یا میر ہو
حسن کے دیکھنے کو ترستی ہے ہر نظر
بندہ خواہ شاہ ہو یا فقیر ہو