راحتِ قلب و نظر ، اے گوشۂ جنت نظیر
میری دھرتی تیری چاہت نے کیا سب کو اسیر
شاعرِ مشرق کا کیسا توُ انوکھا خواب ہے
ساری دُنیا سے الگ ہی تیری آب و تاب ہے
آج ہم آذاد نہ ہوتے تو جیتے کِس طرح ؟
رُوح پرور ساعتوں کے جام پیتے کِس طرح ؟
تیری بنیادوں میں ہے کتنے شہیدوں کا لہوُ
اے مِری دھرتی مرِے خوابوں کی ہے تعبیر توُ
اپنا خوں دے کر ہمیشہ ہم نے مہکایا تجھے
تار تار آ نچل ہوۓ ہیں تب کہیں پایا تجھے
تیرے بیٹے تیری حرُمت کے رہیں گے پاسباں
تیرے ابرُو کی ہر اِک جنبش پہ دے گے اپنی جاں
اپنے قایدٔ کا ہمیشہ یاد رکھیں گے پیام
ہر گھڑی کرتے رہو بس کام کام اور صرِف کام
کِس طرح بھوُلیں گے آخر ہم سبق اسلاف کا
یاد رکھیں گے ہمیشہ ہم سبق اِنصا ف کا
تیرے بدلے میں نہ لوُں جنت یہ وعدہ ہے مرِا
تجھ پہ ہو جاؤں میں قرباں یہ اِرادہ ہے مرِا
میرا پاکِستان ، میری آرزوُ ، مسکن مرِا
تا ابد مہکا رہے پروردگار آ نگن مرِا
اپنے جذبوں کی میں عذراؔ کیسے عکاسی کروں
یہ مرِی خواہش ہے اپنے دیس کی خاطر مروں