قسم سے اب تو اٹھ گیا وعدوں سے بھرم
Govt. تو کبھی private کالج کے چکر میں خوار ہوئے ہم
نہ میرٹ ملا ہم کو نہ وصال صنم
فیسوں کے بھرتے ہی رہے فارم
بڑھتا ہی رہا اپنا غم نہ مسلئہ ہوا کم
معلم بھی دکھاتا رہا بس لیکچری کے پیچ و خم
نہ پلے پڑا علم کچھ، کاغز کورے رہے ہم
کھا کھا کے ڈنڈے،لے لے کے انڈے ،بس بڑھتا رہا زخم
وجہ تھی کےٹیسٹ سیریز کے چکروں میں پڑ جو گئے تھے ہم
دوران لیکچر نیند کا ہی بس غلبہ رہا ہم پہ
نہ استاد کے طعنوں سے مٹا خمار نہ نیند ہوئ کم نہ جاگے ہم
قرب امتحاں مسجد کے ہو لیئے تھے ہم
خدا بھی تھا ناراض شائد جو پھوٹا رزلٹ کا بم
نمبر بھی تھے ملے کم ،رنج کے عالم میں تھے ہم
نہ بڑھا کوئی اک نمبر نہ ہوا کچھ کم ہمارا غم
لگاتے ہی رہے ری چھیکنگ کو بورڈ کے چھکر ہم
لگا کہ روپے چند ہزار، رو پیٹ عزت کا رکھ گئے بھرم ہم
چلو جو ہوا سو ہوا تھی رب کی یہی رضآ
جھیل لی عشق کی بھی سزا، سہ گئے الم بھی ہم
مگر یہیں نہ ہوئ انتہا ستم
باقی تھے کچھ اور بھی رنج و الم،اور ہم
قریب تھا ابھی بھی ایڈمشنر کا عالم
ابھی خوار کلرک کے چکر میں بھی ہونے تھے ہم
نہ رزلٹ کارڈ ملا نہ رجسٹریشن نہ ایڈمشن فارم
بھاگ بھاگ کر،کال کر کر تھک گۓ ہم
اک نصحیت کروں مانند عشق قائل توحید رہنا انتخاب کالج میں
ورنہ احمد کی طرح ہو گے خوار،لکھو گے نظم، جیسے لکھ رہے ہیں ہم