میری غزلیں جو سنتے ہیں خواب میں
پھول بسترپہ چھوڑ جاتے ہیں جواب میں
ہمیںجب بھی ہوتی ہےمحبت کسی سے
کئی لوگ ہڈی بن جاتے ہیں کباب میں
زندہ دل انسان کبھی بوڑھے نہیں ہوتے
تمام عمر وہ رہتے ہیں شباب میں
جو رونق محفل ہوا کرتے تھے کبھی
آج چہرہ چھپائے بیٹھے ہیں نقاب میں
جس کی خاطر گھربار چھوڑا ہم نے
اسی سے دھوکے ملے ہیں جواب میں
یہی خوش فہمیاں جواں رکھتی ہیں مجھے
حقیقت میں کوئی نہیں آتا اصغر کہ خواب میں