میری محفل تھا مری خلوت جاں تھا کیا تھا
وہ عجب شخص تھا اک راز نہاں تھا کیا تھا
بال کھولے ہوئے پھرتی تھیں حسینائیں کچھ
وصل تھا یا کہ جدائی کا سماں تھا کیا تھا
ہائے اس شوخ کے کھل پائے نہ اسرار کبھی
جانے وہ شخص یقیں تھا کہ گماں تھا کیا تھا
تم جسے مرکزی کردار سمجھ بیٹھے ہو
وہ فسانے میں اگر تھا تو کہاں تھا کیا تھا
کیوں وصیؔ شاہ پہ پری زادیاں جاں دیتی ہیں
ماہ کنعان تھا شاعر تھا جواں تھا کیا تھا