پھر سے اُداسی چھائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن
ہر سُو ہی یارا تنہائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن
اِک طرف تو ہر کوئی مصروف ہے خوشیوں میں یارا
مگر یہاں تری یاد آئی ہے میرے آنگن میں عید کے دن
کیسے منائوں میں کوئی تہوار ترے بعد ہم نشین
یہ تو صلاصل بے وافائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن
ماضی کی یادوں نے میرے حال کو بگاڑ رکھا ہے
مستقبل میں یقینا تباہی ہے میرے آنگن میں عید کے دن
تُو آج اَن سُنی کرکے گزر جانا میرے گھر سے
ہاہوں کی ارمانوں کی دہائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن
دماغ کہتا ہے اُسے یاد نہ کر مگر دل یاد کرتا ہے
دل و دماغ میں یہی لڑائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن
کیا سبب ہے جو نگاہوں سے پانی بہنے لگا آج پھر سے
یاد کی دُھول کس نے اُڑائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن
شہر بھر میں شور ہے عید کا تہوار کا یارو
مگر یہاں غموں نے دھوم مچائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن
اِس احساس پے ساری عمر گزر جائے گی مسکراتے ہوئے
اُس نے کچھ زندگی بیتائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن
لیے کاغذ اور قلم رات تاروں کے سنگ یارو
نہال نے اِک غزل فرمائی ہے میرے آنگن میں عید کے دن
ناجانے کتنی ہی بار میں ہار گیا ہوں کہ وہ آئے گی نہال
دل نے آج پھر شرط لگائی مرے آنگن میں عید کے دن