میرے نصیب میں پہلے ساوہ قرار کہاں
ترے ستم کی ہے تربت مرا مزار کہاں
کروں میں کتنے ہی سجدے اسے محبت کے
ریاضتوں کا مر ی ہے یہاں شمار کہاں
کیا لوٹ آ ئے گا جس کو وفا کا پاس نہیں
کسے امید ہے اسکی ہے انتظار کہاں
اجڑ گیا ہے چمن فصل گل ہے روٹھ گئ
اڑے ہے خاک ہی ہرسو کہ وہ نکھار کہاں
حسین پل ہیں میری زندگی سے روٹھ گئے
جو نیند لے گیا میری ہے وہ غبار کہاں
میرا یقین میری موت بن گیا یا ر و ں
کیا ہے دیکھو تو اس نے مرا شکار کہاں
یقین کھورہے ہیں معجزوں پہ جان غزل
حقیقتوں سے بھی ممکن ہے اب فرار کہاں