میرے وطن کی زمین پر یہ کیسے فساد ہیں
ظلم کرنے والوں میں شامل ہم جیسے افراد ہیں
کیسے ہوتا ہمکنار ترقیوں سے یہ دیس میرا
ہر کسی کے یہاں اپنے اپنے مفاد ہیں
میں تو پھر انسان ہوں, سنو فریاد حیوان کی
ہر انسان میں نا جانے شیطان کتنے آباد ہیں
رنگا ہے گلی کا ہر چپہ بے گناہوں کے خون سے
اسلام کے نام پر یہ کرتے ایسے جہاد ہیں
کیسے کہ دیا تم نے سدھار لائیں گے ملک میں
بےایمانی کے نت نئے طریقے ہم ہی نے کیے ایجاد ہیں
ارے بند کرو لڑنا حکمرانوں کے نام پر
انکے گھر میں خود کے درمیان اپنوں سے تضاد ہیں
یہاں ہر کوئی معصوم ہے کس کو سزا دیں
چیخ رہا ہے ہر شخص اس پر لگے الزام بے بنیاد ہیں
احساس نہ ہو عوام کا جس حکمران کو
وہ ملک کے نظام کو کر دیتے برباد ہیں
ڈوبتا جا رہا ہے تاریکیوں میں مستقبل ہمارا
اور کہا جا رہا ہے ہم ستر سال سے آزاد ہیں